• Tue. Jul 1st, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

جشنِ آذادی اور ہم. تحریر: تبسم صباکنیز (سادہ باتیں)

Aug 10, 2021

ایک پاکستانی دانشور کی ایک بات نظروں سے گزری بڑی اچھی اور حقیقت سے قریب تر لگی سوچا آپ لوگوں سے بھی شیئر کرلوں اس نے کہا کہ ”دُنیا کی ہرقوم اپنے جشنِ آذادی پہ سوچتی ہے کہ آگے کیا کرنا ہے جبکہ پاکستانی قوم سوچ رہی ہوتی ہے کہ آگے کیا ہوناہے“ بات اس کی دل کو لگتی ہے کیوں ہمارے حکمرانوں نے ماشاء اللہ اس ملک کی حالت ہی ایسی کردی ہی کہ عوام کا ایسا سوچنا جائز ہے۔جشنِ آذادی کے دن سمجھ نہیں آ رہاہوتا کہ اس ملک کے ملنے پر اللہ پاک کا شکرادا کریں یا اپنی نااہلیوں پہ شرمندہ ہوں،کیونکہ یہ دطن اللہ پاک کی طرف سے دیا گیا ایک خوبصورت تحفہ ہے پر ہم نے اس تحفے کا جوحشر کیا ہے وہ بھی اللہ ہی بہتر جانتاہے۔یہ 1948؁ء کے اوائل کی بات ہے ایک سیئنرصحافی کہتے ہیں کہ میں کراچی جانے والی قومی شاہرہ کے کنارے کھڑا ہواتھا کہ اچانک مجھے اپنے پاس سے گزرتی ہوئی گاڑی میں ملک کے پہلے گورنرجنرل اور بابائے قوم ”قائدعظم محمدعلی جناح“ کی جھلک دیکھائی دی مجھے لگا شاید یہ میرا وہم ہے پھر ایک خیال کے تحت میں نے وہاں موجودہ لوگوں سے تصدیق کی تو انہوں نے میرے گمان کی تائید کردی اور میں حیران کھڑا سوچتا رہ گیا کہ ناسیٹیاں بجی،نہ ٹریفک روکی اور وقت کے گورنرجنرل کی سواری گزرگئی،کیاشاہانہ اندازتھا،پوری قوم کے ہیروبغیرکسی پروٹوکول کے جارہے تھے،یہ تھے اصلی حکمران جوعوام کے تکلیف اور درد کو ناصرف سمجھتے تھے بلکہ محسوس بھی کرتے تھے۔ ”بابائے قوم قائدعظم محمد علی جناح“ اس فکر میں تھے کہ اس وقت ہمیں اپنا نہیں صرف اور صرف اس ملک،اس میں بسنے والے لوگوں اور ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کا سوچناہے ان لوگوں کا سوچنا ہے جنہوں نے میری ایک آواز پراپنے مال وجان،گھربار،عزت وآبرو غرض کہ ہرچیز اس وطنِ عزیز پروار دی ہے۔میں نے 14 اگست 1947؁ء کے وہ خونی مناظرخوداپنی آنکھوں سے تونہیں دیکھے بلکہ ہم میں سے بھی کسی بھی نہیں دیکھے مگرجوکچھ ڈکومینٹرز میں دیکھا اوربزرگوں سے سُناہے وہ بہت خوفناک اور دل دہلا دینے والا ہے کہ آج جن آذاد فضاؤں کی ہمیں قدر نہیں ہے(سوائے ہمارے حکمرانوں کے کیونکہ ان کی روزی روٹی کا سوال ہے معذرت کے ساتھ)ان کوحاصل کرنے کی خاطر کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان قربان ہوگئے تھے،اس وطن عزیز کی خاطر ناجانے کتنی بہنوں نے اپنی عزتیں نچھاور کیئں،کتنی ماؤں نے اپنے سامنے اپنے معصوم بچوں کوتہے تیغ ہوتے ہوئے دیکھا اور اپنے سینوں پرپتھررکھ لیے،اس آذادی کوحاصل کرنے کی خاطر ناجانے کتنی سوھگنوں نے اپنے سوھاگ وار دیے،بزرگ بتاتے ہیں کہ ہندوستان سے وطنِ عزیز میں داخل ہونے والاہرقافلہ اپنے ساتھ ایک خونی داستان لیے ہوئے تھا،ہندوبلوائیوں نے مسلمانوں کاقتلِ عام کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھارکھی تھی لاشوں اور زخمیوں سے بھری گاڑیاں جب پاکستان میں جب داخل ہوتی تو دیکھنے والوں کاکلیجہ منہ کوآتااور یہ خونی منظرجگر کوپاش پاش کردیتا،ان سب مشکلات کے باوجود جب یہ لُٹے پُٹے قافلہ پاک سرزمین میں داخل ہوتے توزندہ بچ جانے والے لوگ ربِ کعبہ کے حضور سجدہ شکربجالاتے۔بیشک یہ ملک وقوم کے لیے بہت کڑا وقت تھا پر اس قوم نے ناممکن کوبھی اس طرح ممکن کردیکھایا کہ پوری دُنیا داد دیے بغیر نارہ سکی۔کسی نے پوچھا کہ پاکستان کیا ہے تو کہنے پڑا کہ ”ایک دیوانے کا خواب ایک دیوانے کی تعبیر“ جن حالات میں آذاد مملکت کاخواب ”شاعرِمشرق ڈاکٹر علامہ محمداقبال“نے دیکھا وہ صرف دیوانگی ہی لگتی تھی لیکن جب ”بابائے قوم“ نے اس خواب کوحقیقت بنانے کا عزم کیا تویہ اس سے بھی بڑی دیوانگی تھی،پرقدرت نے کرشمہ کردیکھا اور چند ہی سالوں میں دُنیا کی پہلی اور واحد نظریاتی مملکت ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ معرض وجود میں آگئی۔اچھا لوگ بھی کیا کیا سوال کرتے ہیں مجھ سے کسی نے پوچھا کہ پاکستان اور ہندوستان ایک ہی وقت میں آذاد ہوئے ایک ہی وقت میں حکومتِ برطانیہ کی طرف سے ان کی آذادی کااعلان کیاگیا مگر پاکستان کا یومِ آذادی پہلے اور ہندوستان کا بعدمیں ایسا کیوں؟ دیکھیں ہندوستان کا پہلے اورپاکستان کا بعدمیں بھی توہوسکتاتھا؟ یا عین ممکن تھا کہ دونوں ممالک ایک ہی دن جشنِ آذادی مناتے،پرایسا کچھ نہیں ہے پاکستان کا پہلے اور ہندوستان بعد میں جشنِ آذادی مناتے ہیں۔یہ بات سُن کرمجھے ایک بڑی پیاری حدیث مبارکہ یاد آگئی،آپ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ”اللہ تعالیٰ کسی کافرکوکسی مومن پرراہ نہیں دیتا“اگر سوچاجائے تویہاں بھی یہی معاملہ نظرآتاہے۔بچپن میں ہم ہرسال اگست میں گھر کوخوب جھنڈیوں سے سجاتے تھے ان میں پرچم کے ڈیزئن والی جھنڈیاں بھی ہوتی تھیں اگرکبھی کوئی جھنڈی نیچے گر جاتی اور ”بابا جان“ کی نظر اس پرپڑجاتی توہماری اچھی خاصی کلاس ہوجاتی کہ اگر ان کی حفاظت نہیں کرسکتے تولگاتے ہی کیوں ہو،پرچم لگانے کی اجازت اس شرط پہ ملتی کہ صبح طلوع آفتاب کے بعدپرچم فضاء میں بلند کیاجائے گا اور غروب آفتاب سے پہلے پہلے اُتارلیاجائے گا، ابا جی کاکہنا ہے کہ پرچم پرشام کے سایے نہیں پڑنے چاہیے یہ زوال کی علامت ہے۔
وقت گزرتا گیا اور ہم بڑے ہوگئے،آنکھوں دیکھاحال بتانے والے بزرگ منومٹی تلے جاسوئے،روایات دم توڑنے لگیں،ہم نے اپنے بزرگوں کی اس بات کوپسِ پشت ڈال دیا جس کاخمیازہ اب ہم بھگت رہے ہیں۔ہم جنہیں اللہ تعالیٰ نے عظیم قوم ہونے کا شرف بخشاہے بجائے ترقی کے تزیلی کی طرف گامزن ہوگئے ہیں۔ہرسال 14 اگست کے دن ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ”اے روحِ قائدہم آج کے دن تجھ سے وعدہ کرتے ہیں،وطن کوہم عظیم سے عظیم تر بنائیں گے“ہائے میرے عزیزو! وہ وعدہ ہی کیا جو وفاہوسکے۔آج غیرمسلم ہرمیدان میں ہم سے آگے ہیں کبھی سوچاہے کیوں؟ ارے نا جی ساڈے کول ایناٹائم کیتھوں،ساڈے کول اینی فرصت نہی،ہونا بندہ اپنا کم کرے کہ ملک دا سوچے۔چلیں آپ لوگ نا سوچیں آپ کی یہ مشکل میں آسان کیے دیتی ہوں وہ لوگ اس لیے ہم سے آگے ہیں کہ قائدعظم کے وہ رہنمااصول جو کبھی برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا کر یہ ملک حاصل کیا تھا آج انہوں نے اپنالیے ہیں۔ایمان،اتحاد اورتنظیم وہ سُنہری اصول ہیں جو کسی بھی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔میں نے اکثرلوگوں کو یہ گلہ کرتے سُناہے کہ اس ملک نے ہمیں کیادیا؟ میرا دل کرتا ہے ان سے پوچھوں کہ آپ نے اس ملک کوکیادیا؟ زندگی صرف لینے کا ہی نہیں دینے کا نام بھی ہے۔پر عوام توعوام یہ بات تو ہمارے حکمران تک بھول گئے ہیں۔کہنے کو تو ہم اپنا چوہترواں یومِ آذادی منانے والے ہیں مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ اِن 74 سالوں میں ہم نے کیا تیر مارے ہیں؟ ہم نے کیا کھویا اور کیاپایاہے؟کتنے قدم آگے بڑھائے ہیں اور کتنا پیچھے گئے ہیں؟یہ بات سوچنے کی سب سے ذیادہ ضرورت ہمارے حکمران طبقے کوہے جوزبانی جماخرچ استعمال کرتے نہیں تھکتے۔خیر عوام بھی اس کارخیر میں حصہ لے سکتے ہیں کیسے یہ بھی بتاتی ہوں کیونکہ یہ بات مجھے بھی ”بابا“ سے ڈانٹ کھانے کے بعدسمجھ آئی۔ہوا کچھ یوں کہ ایک دن ”اباجی“ گھر آئے تو سارے گھر کی لائٹیں جل رہی تھیں ”بابا“ نے بولا کہ”بیٹا کچھ تو ملک کا خیال کرو اور بچت کرو،بس ضروری لائٹس آن رکھو اور باقی بند کر دو“، میں نے بولا ”بابا ملک کا خیال کرتے توہیں اسی لیے ہر مہینے وقت پہ بل پے کرتے ہیں“ بابا کہنے لگے ”بیٹا! ملک کاخیال صرف ایسے ہی نہیں بچت کر کے بھی کیا جاسکتاہے“،میں نے کہا ”بابا ایک ہمارے بچت کرنے سے کیا ہوتا ہے“،تو بابا نے بڑی پیاری بات کہی کہنے لگے ”بیٹا! قطرے قطرے سے ہی دریابنتاہے تم اپنے حصے کا کام کرتے جاؤ دوسرں کا کام اُن پہ چھوڑ دو تم اپنے اعمال کے ذمہ دار اور جواب دہ ہونا کہ دوسرں کے“۔اُمید ہے آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔بس اتنا کہوں گی کہ آج ہمارے بچوں سے لے کربوڑھوں تک اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس آذادی کی نعمت کوکیسے برقرار رکھیں۔حضرتِ قائد نے فرمایا تھاکہ”کوئی شاندار کارنامہ سرانجام دینے اورملک کی قومی زندگی میں اپنا سہی مقام حاصل کرنے کے لیے خدمت،تکلیف اور قربانی بنیادی تقاضے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ میرے ہم وطنوں ورنہ ہماری داستان بھی ناہوگی داستانوں میں۔آؤ ایک نئے عزم کے ساتھ عہد کریں۔اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر۔
ع: دُشمن کی نگاہوں کو ہم اُٹھنے سے پہلے جھکادیں گے کمزور جو ہم کوسمجھے گااُسے امن کی راہ دیکھادیں گے
ع: ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی دن آتاہے آذادی کا آذادی نہیں آتی
خُدا کرے کہ میری عرضِ پاک پہ اُترے وہ فصلِ گُل جیسے اندیشہ زوال ناہو۔آمین ثم آمین