• Tue. Jul 1st, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی تحریر: تبسم صباء کنیز (سادہ باتیں)

Sep 29, 2021

مہربان،قدردان،صاحبان ادھر آئیں سستے میں پائی، جوپہلے آئے گا بڑی بولی لگائے گا وہی کرسی لے کرجائے گا،بڑی کرسی بڑے دام چھوٹی کرسی چھوٹے دام،پیسے پھینک تماشہ دیکھ،جیب ہے بھاری تو کرلے صاحب بننے کی تیاری،رونہ ڈگریوں کوآگ لگا اور لمبی تان کے سوجا٭مداری!بچہ جمورا کیا مانگتاہے،بچہ جمورا‘ صرف ایک نوکری،مداری‘ساتھ کیالایاہے؟بچہ جمورا‘ماسٹر ڈگری،بیچلرڈگری،بی ایڈ ڈگری،اور بہت سارے پرفیشنل ڈپلومے،مداری‘ بس؟بچہ جمورا‘اور کیاچائیے؟مداری‘ نیند میں ہے کیا؟بچہ جمورا‘نہیں، مداری‘ لگتا تو کچھ ایساہی ہے یہ بتاجیب میں مال ہے؟بچہ جمورا‘ نہیں، مداری‘ اسی لیے تُو بے حال ہے اچھا چل یہ بتا کسی بڑے بندے سے یاری ہے ورنہ اس کے بنا خواری ہے؟ بچہ جمورا‘ نہیں،مداری‘کوئی تجربہ نوکری کا؟بچہ جمورا‘ نوکری ملی ہی نہیں تجربہ کہاں سے لاؤں؟،مداری‘ملے گی بھی آسان حل بتاؤ سُکھی ہوجائے گا؟،بچہ جمورا‘ بتا؟،مداری‘ جوتیرے پاس ہے سب بیکار ہے یہ جوڈگریوں کا پلندہ ہے اصل میں خوش فہمی کاپھندہ ہے اس پھندے کوگلے لگا اورجھول جا یہی تیرے مسئلے کا حل ہے۔یہ وہ جملے ہیں جوہمارے ملک میں ہردور میں ہرروز مداری دہراتے ہیں اور بچہ جمورا ڈگریوں کا پھندہ گلے میں ڈال کر ان کی ڈگڈگی کی تان پر ناچنے پہ مجبور ہے اب تو بچہ جمورا اس کھیل کا اتناعادی ہوگیاہے کہ وہ ڈگری کا بعد میں اور رشوت اور سفارش کا پہلے سوچتاہے۔ہمارے ملک کا بچہ جمورا کئی سال سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دھکے کھانے،بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے اور کئی سال کھجل خوار ہونے کے بعد ڈگری لے کر جب گھر آتا ہے تو کہنا تو یہ بنتا ہے ”کہ لوٹ کے بدو گھر کو آئے“اُلٹا گھر والے اس سے مستقبل کی ہزاروں امیدیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب مشکل وقت گزر گیا اب سب ٹھیک ہوجائے گا اب اس کی فیسیوں کے لیاگیاقرض بھی اُترجائے گا اور گروی رکھا زیور بھی واپس آجائے گا، بچہ جمورا بھی بڑا خوش ہوتا ہے کہ آخر منزل پر پہنچ ہی گیا خواری ختم ہوئی اب تو آسانیاں ہی آسانیاں ہیں،مگر جب وہ کاغذوں کاپلندہ لے کر میدانِ عمل میں نکلتا ہے تو اس کی ساری خوشی ہوا ہونے میں دیر نہیں لگتی،تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اصل خواری تو اب شروع ہوئی ہے وہ امتحان تو کچھ بھی نہیں تھے کڑا امتحان تو اب شروع ہوا ہے یعنی اصل امتحان تو نوکری کی تلاش ہے اور بھاری فیس توافسرشاہی کی جیبوں کوگرم کرنے کے لیے ابھی ادا کرناباقی ہے۔ایسے میں کوئی بچہ جمورا تو جیسے تیسے کر کے افسرشاہی کی بھاری فیس دے کر منظورِ نظر قرار پاتا ہے اور کوئی فیس نا دے سکنے پر زلیل وخوار ہوتا ہے،کبھی کبھی کسی کا کوئی ماما،چاچا،تایا یا کوئی اور دور کا رشتے داراس افسرشاہی نظام کا حصہ نکل آتا ہے جو اسے اس نظام کا حصہ بننے میں مدد دے دیتا ہے مگر ایسا بھی کم ہی ہوپاتا ہے کیونکہ جب بات شاہی سکے کی آتی ہے تو اپنے بھی طوطاچشمی کرنے لگتے ہیں،باقی جوکچھ بھی نہیں کرپاتے وہ ان میں سے کچھ تومایوس ہوکرڈگریوں کے پلندے کو گلے کاپھندہ بنالیتے ہیں اور موت کوگلے لگالیتے ہیں اوع کچھ غلط طرف چل نکلتے ہیں کوئی منشیات کا استعمال شروع کردیتا ہے تو کوئی منشیات کا دھندہ۔منشیات کادھندہ ہویاگلے کا پھندہ بات توایک ہی ہے،پہلے والا اپنے ساتھ صرف اپنے خاندان کولے کرمرتا ہے اور بعد والا اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اور کئی خاندانوں کو بھی اس پھندے کی نظر کردیتاہے۔جو بھی ہو سوال یہ ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟بچہ جمورا کا قاتل کون ہے؟ہم،ہمارا سسٹم،ہمارا معاشرہ؟ہمارے حکمران؟یا پھر یہ افسرشاہی؟ذراسوچیئے۔۔۔۔اللہ ہم سب کاحامی وناصر۔
جس دور میں لٹ جائے فقیر کی کمائی اس دور کے حاکم سے کچھ بھول ہوئی ہے

مہربان،قدردان،صاحبان ادھر آئیں سستے میں پائی، جوپہلے آئے گا بڑی بولی لگائے گا وہی کرسی لے کرجائے گا،بڑی کرسی بڑے دام چھوٹی کرسی چھوٹے دام،پیسے پھینک تماشہ دیکھ،جیب ہے بھاری تو کرلے صاحب بننے کی تیاری،رونہ ڈگریوں کوآگ لگا اور لمبی تان کے سوجا٭مداری!بچہ جمورا کیا مانگتاہے،بچہ جمورا‘ صرف ایک نوکری،مداری‘ساتھ کیالایاہے؟بچہ جمورا‘ماسٹر ڈگری،بیچلرڈگری،بی ایڈ ڈگری،اور بہت سارے پرفیشنل ڈپلومے،مداری‘ بس؟بچہ جمورا‘اور کیاچائیے؟مداری‘ نیند میں ہے کیا؟بچہ جمورا‘نہیں، مداری‘ لگتا تو کچھ ایساہی ہے یہ بتاجیب میں مال ہے؟بچہ جمورا‘ نہیں، مداری‘ اسی لیے تُو بے حال ہے اچھا چل یہ بتا کسی بڑے بندے سے یاری ہے ورنہ اس کے بنا خواری ہے؟ بچہ جمورا‘ نہیں،مداری‘کوئی تجربہ نوکری کا؟بچہ جمورا‘ نوکری ملی ہی نہیں تجربہ کہاں سے لاؤں؟،مداری‘ملے گی بھی آسان حل بتاؤ سُکھی ہوجائے گا؟،بچہ جمورا‘ بتا؟،مداری‘ جوتیرے پاس ہے سب بیکار ہے یہ جوڈگریوں کا پلندہ ہے اصل میں خوش فہمی کاپھندہ ہے اس پھندے کوگلے لگا اورجھول جا یہی تیرے مسئلے کا حل ہے۔یہ وہ جملے ہیں جوہمارے ملک میں ہردور میں ہرروز مداری دہراتے ہیں اور بچہ جمورا ڈگریوں کا پھندہ گلے میں ڈال کر ان کی ڈگڈگی کی تان پر ناچنے پہ مجبور ہے اب تو بچہ جمورا اس کھیل کا اتناعادی ہوگیاہے کہ وہ ڈگری کا بعد میں اور رشوت اور سفارش کا پہلے سوچتاہے۔ہمارے ملک کا بچہ جمورا کئی سال سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دھکے کھانے،بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے اور کئی سال کھجل خوار ہونے کے بعد ڈگری لے کر جب گھر آتا ہے تو کہنا تو یہ بنتا ہے ”کہ لوٹ کے بدو گھر کو آئے“اُلٹا گھر والے اس سے مستقبل کی ہزاروں امیدیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب مشکل وقت گزر گیا اب سب ٹھیک ہوجائے گا اب اس کی فیسیوں کے لیاگیاقرض بھی اُترجائے گا اور گروی رکھا زیور بھی واپس آجائے گا، بچہ جمورا بھی بڑا خوش ہوتا ہے کہ آخر منزل پر پہنچ ہی گیا خواری ختم ہوئی اب تو آسانیاں ہی آسانیاں ہیں،مگر جب وہ کاغذوں کاپلندہ لے کر میدانِ عمل میں نکلتا ہے تو اس کی ساری خوشی ہوا ہونے میں دیر نہیں لگتی،تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اصل خواری تو اب شروع ہوئی ہے وہ امتحان تو کچھ بھی نہیں تھے کڑا امتحان تو اب شروع ہوا ہے یعنی اصل امتحان تو نوکری کی تلاش ہے اور بھاری فیس توافسرشاہی کی جیبوں کوگرم کرنے کے لیے ابھی ادا کرناباقی ہے۔ایسے میں کوئی بچہ جمورا تو جیسے تیسے کر کے افسرشاہی کی بھاری فیس دے کر منظورِ نظر قرار پاتا ہے اور کوئی فیس نا دے سکنے پر زلیل وخوار ہوتا ہے،کبھی کبھی کسی کا کوئی ماما،چاچا،تایا یا کوئی اور دور کا رشتے داراس افسرشاہی نظام کا حصہ نکل آتا ہے جو اسے اس نظام کا حصہ بننے میں مدد دے دیتا ہے مگر ایسا بھی کم ہی ہوپاتا ہے کیونکہ جب بات شاہی سکے کی آتی ہے تو اپنے بھی طوطاچشمی کرنے لگتے ہیں،باقی جوکچھ بھی نہیں کرپاتے وہ ان میں سے کچھ تومایوس ہوکرڈگریوں کے پلندے کو گلے کاپھندہ بنالیتے ہیں اور موت کوگلے لگالیتے ہیں اوع کچھ غلط طرف چل نکلتے ہیں کوئی منشیات کا استعمال شروع کردیتا ہے تو کوئی منشیات کا دھندہ۔منشیات کادھندہ ہویاگلے کا پھندہ بات توایک ہی ہے،پہلے والا اپنے ساتھ صرف اپنے خاندان کولے کرمرتا ہے اور بعد والا اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ اور کئی خاندانوں کو بھی اس پھندے کی نظر کردیتاہے۔جو بھی ہو سوال یہ ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟بچہ جمورا کا قاتل کون ہے؟ہم،ہمارا سسٹم،ہمارا معاشرہ؟ہمارے حکمران؟یا پھر یہ افسرشاہی؟ذراسوچیئے۔۔۔۔اللہ ہم سب کاحامی وناصر۔
جس دور میں لٹ جائے فقیر کی کمائی اس دور کے حاکم سے کچھ بھول ہوئی ہے