نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ میں آج بھی سیاہ فام شہریوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سفید فام پولیس آفیسرز کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلوئیڈ کا قتل اس کی ایک مثال ہے تاہم ماضی میں امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ان دنوں ایک امریکی عدالت میں اس زمانے سے وابستہ ایک ایسا مقدمہ درج کرایا گیا ہے کہ سن کر ہر امریکی کا سر شرم سے جھک جائے۔
سی این این کے مطابق یہ مقدمہ 82سالہ سیاہ فام خاتون کلاﺅڈیٹ کولوین کی طرف سے درج کرایا گیا ہے۔ جب وہ لڑکپن میں تھی، اس وقت بس اور ٹرین میں سفر کرتے وقت سیاہ فام شہریوں پر قانوناً لازم تھا کہ وہ سفید فام امریکیوں کے لیے سیٹ خالی کر دیں۔
کلاﺅڈیٹ کی عمر اس وقت 15سال تھی۔ وہ امریک ریاست الباما کے شہر مونٹگمری میں ایک بس میں سفر کر رہی تھی جب اس نے ایک سفید فام خاتون کے لیے سیٹ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ قانون کی اس خلاف ورزی پر کلاﺅڈیٹ کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیااور عدالت سے بعد ازاں اسے سزا بھی سنا دی گئی۔کلاﺅڈیٹ نے اب مونٹگمری کاﺅنٹی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے جس میں اس نے اپنے اس ماضی کے مقدمے کا ریکارڈ ختم کرنے اور اس کا نام سزا یافتہ افراد کی فہرست سے نکالنے کی استدعا کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ کلاﺅڈیٹ نے روسا پرکس نامی سیاہ فام خاتون سے 9ماہ قبل سفید فام سفید خاتون کے لیے سیٹ خالی کرنے سے انکار کیا تھا تاہم سول رائٹس موومنٹ میں شہرت روسا پرکس کے کیس کو ملی۔ اس کی وجہ بھی حیران کن طور پر سفید فام کمیونٹی کی پسند و ناپسند تھی۔ سفید فام کمیونٹی کے لیے پلے کارڈز وغیرہ پر روسا پرکس کی تصویرزیادہ قابل قبول تھی۔روسا پرکس اس سے عمر میں بڑی اور شادی شدہ تھی اور اس کی رنگت بھی کلاﺅڈیٹ کی نسبت کم سیاہ تھی۔ سفید فام کمیونٹی نے کلاﺅڈیٹ کی تصویر کو ناپسند کیا تھا جس کی وجہ سے اس کا نام آگے نہ آ سکا۔
امریکہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا رہا؟ 82 سالہ خاتون کے مقدمے میں دل دہلا دیے
