کراچی(غلام مصطفے عزیز )تھائی لینڈ کے قونصل جنرل تھاٹری چواچھٹا نے پاک تھائی لینڈ آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) پر جاری مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بال پاکستان کے کورٹ میں ہے کیونکہ تھائی لینڈ پہلے ہی ایف ٹی اے کے تحت دونوں ملکوں کے مابین قابل تجارت 200کے قریب اشیاء کی فہرست جمع کرواچکا ہے لیکن یہ معاملہ پاکستان کی وزارت تجارت میں زیر التواء ہے اور ہم ان کے جواب کے منتظر ہیں۔ اس ضمن میں ایف ٹی اے کی پیش رفت پر پاکستان اور تھائی لینڈ کی وزارت خارجہ کے درمیان ایک سیاسی مشاورت جنوری 2020کو اسلام آباد میں ہونی ہے تاہم کراچی چیمبر اجلاس سے قبل حکومت پر زور دیتے ہوئے اس حوالے سے تمام کام پہلے ہی مکمل کروانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ منگل کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوںنے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میںکیا۔ اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب احمد خان، سینئر نائب صدر ارشد اسلام، نائب صدر شاہد اسماعیل اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی شریک تھے۔ تھائی قونصل جنرل نے بتایا کہ کراچی میں اپنی خدمات کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر انہوں نے تھائی قونصلیٹ میں پاک تھائی بزنس ہاؤس کا بھی افتتاح کیا کیونکہ تھائی قونصلیٹ اس فورم کے ذریعے دوطرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا خواہش مند ہے جس کو پہلے ہی دوطرفہ تجارت کے حوالے سے 10انکوائریز موصول ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر میں تھائی قونصلیٹ کے کمرشل سیکشن کے انچارج کی سربراہی میں ایک وفد تھائی لینڈ بھیجا جائے گا جس کے بعد ایک اور4 سے 5 رکنی تاجروں کا وفد بھی بینکاک کا دورہ کرے گا جہاں بزنس ٹو بزنس میٹنگز کے علاوہ اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے وہ کس طرح ایک دوسرے کو اپنا تعاون پیش کرسکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور تھائی لینڈ کے مابین موجودہ تجارتی تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ اگرچہ تجارت تھائی لینڈ کے حق میں ہے لیکن وہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت کو متوازن دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے کے سی سی آئی کی تاجربرادری کے ساتھ مکمل تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تھائی لینڈ کے لیے برآمدات بتدریج بہتر ہورہی ہیں کیونکہ 2017 میں تھائی لینڈ نے 83.7 ملین ڈالر مالیت کی اشیاء درآمد کیں اور 2018 میں 112.5ملین ڈالر مالیت کی اشیاء درآمد کی گئیں جبکہ 2019 کے پہلے 9ماہ کے دوران مجموعی طور پر 118.8 ملین ڈالر مالیت کی اشیاء اب تک درآمد کی جاچکی ہیں۔انہوں نے بعض ممکمنہ شعبوں باالخصوص فشریز پر روشنی ڈالی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دیاجاسکتا ہے کیونکہ تھائی لینڈ پاکستان سے سمندری خوراک درآمد کرنے والا پہلا کنندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تھائی لینڈ کو سمندری خوراک کا خام مال درآمدکنندہ ہے جس کو ہم سراہتے ہیں اور یہ ایک اہم شعبہ ہے جہاں ہم مزید تجارت کرسکتے ہیں۔تھائی لینڈ کولڈ اسٹوریج کی سہولیات بڑھانے، سمندری خوراک کی درجہ بندی اور اس خاص شعبے میں تربیت فراہم کرنے میںمددکرسکتا ہے۔ انہوں نے دونوں ملکوں میں سیاحت کے مواقعوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تھائی سیاحوں کے لیے پاکستان میں بے شمار مواقع موجود ہیں خاص طور پرایڈونچر اور زیارت کرنے والے سیاح جو بڑے پیمانے پر پاکستان کے شمالی علاقوں کا دورہ کرتے ہیں۔2018 میں مجموعی طور پر 10ہزار تھائی سیاح پاکستان آئے اور اس سال یہ تعداد دگنی ہوکر20 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح پچھلے سال کی طرح بہت سارے پاکستانیوں نے بھی تھائی لینڈ کا دورہ کیا اور 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے تھائی لینڈ کا دورہ کیا اور ہمیں امید ہے کہ یہ تعداد اس سال ایک لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ تھائی عوام کی حوصلہ افزائی کے لیے بینکاک میں پاکستانی سفیر کوپاکستان میں سیاحت کے دستیاب مواقعوں کی مارکیٹنگ اور فروغ دینے کے لئے مزید جدوجہد کرنا ہوگی۔اس ضمن میں تھائی ٹورزم اتھارٹی پاکستانی سفارتخانے کو یقینی طور پر مکمل تعاون اور مدد فراہم کرے گی۔ قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر آغا شہاب احمد خان نے اپنے کلمات میں پاکستان اور تھائی لینڈ کے درمیان تجارت کی ترجیحات کو بدلنے اور دونوں ملکوں کے مابین سیاحت کے وافر مواقعوں کو فروغ دینے اور مارکیٹنگ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بے شمار دلکش اور حسین مقامات موجود ہیں جو تھائی سیاحوں کے لیے بہت زیادہ پرکشش ثابت ہوسکتے ہیں۔پاکستان کو سیاحت کے حوالے سے دستیاب مواقعوں کی مارکیٹنگ میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے دونوں ملکوں کے درمیان ایف ٹی اے پر کام تیز کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایف ٹی اے کی فہرست میں مزید آئٹمز کو لازمی طور پر شامل کیا جائے۔ دوطرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے چھوٹے ہدف طے کرنا ہوں گے اور اس کے بعد بڑے اہداف کو حاصل کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ تعاون کے نظر انداز کیے گئے شعبوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دونوں جانب سے اس کا جائزہ لینا چاہیے نیز ہمیں صرف روایتی آئٹمز کی تجارت تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے۔ آغا شہاب نے کہاکہ تھائی لینڈ میںایگرو بزنس، فوڈ پروسسینگ اور آٹو موٹیو جیسی ہائی ویلیو انڈسٹریز ہیں۔ پاکستان ان شعبوں میں مشترکہ شراکت داری کے منصوبے ترتیب دے کر ان صنعتوں کو مل کر ترقی دے سکتا ہے۔ مزید برآں تجارت، ثقافت، انفرااسٹرکچر کی ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی، دفاع، تعلیم اور مذہبی سیاحت میں باہمی تعاون کے امکانات بھی موجود ہیں۔