اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔اس سے قبل اٹارنی جنرل نے عدالت میں آرمی چیف کی توسیع سے متعلق کابینہ سے منظور شدہ نئی سمری جمع کرادی۔
عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ بات طے ہے کہ ہم نے جن غلطیوں کی نشاندہی کی انہیں تسلیم کرکے ٹھیک کرلیاگیاہے۔جس پر اٹارنی جنرل کہا انہیں غلطی تسلیم نہیں کیاگیا۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ذرائع ابلاغ پر چلنے والی یہ خبر درست نہیں کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا ہے اور یہ کہ عدالت اب بھی درخواست گزار ریاض حنیف راہی کی درخواست ہی سن رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں جنرل باجوہ کی طرف سے فروغ نسیم پیش ہوئے ہیں اور اپنا وکالت نامہ بھی جمع کرادیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کررہا ہے بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مشیر عالم شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی ان کو تسلیم کیا گیا ہے اور درستگی کی گئی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا ہم نے ان غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا جس پر عدالت نے کہا کہ تسلیم نہیں کیا تو درستگی کیوں کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا انہیں موقع دیں وہ اپنے دلائل سے آگاہ کرتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہم کیس ریاض راہی کی درخواست پرہی سن رہے ہیں، کل کیے گئے اقدامات سے متعلق بتایاجائے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ توسیع سے متعلق قانون نہ ہونے کا تاثر غلط ہے۔چیف جسٹس نے کہا کل آپ نے جو دستاویز دی تھیں اس پر گیارہ ارکان نے ہاں کی ہوئی تھی۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کل بھی میں نے بتایا کہ توسیع کے نوٹیفکیشن پرمتعدد وزراکے جواب کا انتظار تھا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہاگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔عدالت نے کہا کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہے ہمیں دکھائیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کہاں لکھا ہے کہ اگر کابینہ ارکان جواب نہ دیں تو اسے ہاں تصور کیاجائے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا جی ہاں آرٹیکل انیس اے کے مطابق ہاں تصور ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انیس اے تب لاگو ہوتا ہے جب مخصوص وقت متعین کیاگیاہو۔ اٹارنی نے کہا ان کے انتظارکے آگے ہاں لکھا ہوا ہے۔ رول کے مطابق انتظار کا مطلب ہاں ہوتا ہے۔انتظار کتنے دن کا ہوسکتا ہے یہ بھی بتادیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا آرمی رولز میں ترامیم ہوئی ہیں تواس کی کاپی فراہم کی جائے۔اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل ایک سو چہتر کے تحت دو سو پچپن میں ترمیم ہوئی۔جسٹس منصور علی نے کہا کیا کوئی ریٹائرڈ آفیسر بھی آرمی چیف بن سکتاہے؟اٹارنی جنرل نے کہاآرمی ریگولیشن کی کتاب مارکیٹ میں نہیں ملتی۔جس پر چیف جسٹس نے کہا اب سوال اٹھایاہے توجائزہ لینے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا آرمی چیف کی توسیع کامعاملہ بہت اہم ہے، اس معاملے پرقانونی نکات خاموش ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ماضی میں جرنیلوں نے کئی کئی سال توسیع لی۔انہوں نے کہاازسرنواورتوسیع سے متعلق قانون دکھائیں جس پرعمل کیاگیا۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اپنے دلائل مکمل کرکے عدالتی سوالوں کاجواب دیں گے۔
عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی ہے۔
جن غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ، تسلیم کرکے انہیں ٹھیک کرلیاگیا، آرمی چیف کی توسیع اہم معاملہ، قانونی نکات خاموش ہیں: چیف جسٹس
