لاہور (نمائندہ خصوصی) چین کے لیے پروازیں بند ہونے کے باوجود وہان میں پھنسے 10 پاکستانی طلبا وطن واپس پہنچ گئے، وہ تھائی ایئرلائنز کی پرواز کے ذریعے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل سٹی 42 کے مطابق طلبا چین سے بنکاک گئے تھے ، وہاں سے تھائی ایئرلائن کی پرواز کے ذریعے لاہور پہنچے ہیں۔ طلبا نے بتایا کہ چین میں ہزاروں پاکستانی طلبا مشکلات کا شکار ہیں، یہ بھی تعلیم کی غرض سے چین میں مقیم تھے ، وہان میں ابھی بھی ہزاروں پاکستانی پھنس کر رہ چکے ہیں۔
یادرہے کہ عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کی ایک منفرد قسم کی وباء پھونٹے کو صحت کی عالمی ایمرجنسی قرار دے دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ادارے نے تصدیق کردی ہے کہ اس وائرس کے چین سے شروع ہونے کے بعد اس کے دوسرے ملکوں میں پہنچنے سے شدید خطرات پیدا ہوگئے۔ جس کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ مربوط طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ادارے کے جنیواکے صدر دفتر میں ایمرجنسی کمیٹی کی سفارش کے بعد ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبری نے یہ اعلان کیا۔
نیو یارک میں ادارے کے ایک دفتر کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے ایمرجنسی کمیٹی نے ہنگامی حالت نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اب اس وباء کے چین سے باہر پھیل جانے سے یہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ واشنگٹن میں محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام نے اس صورت حال کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ چین کے صوبے ”ہوبے“ اور خاص طور پر اس کے صدر مقام شہر ”ووہان“ میں اگرچہ حالات تشویشناک ہیں لیکن چین سے باہر معاملات سنجیدہ ضرور ہیں تاہم زیادہ فکر مندی اور پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔
واشنگٹن کے حکام نے امریکی اور دیگر ممالک کے شہریوں کو خبردار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ کرونا وائرس کی اس نئی قسم سے چین کے علاوہ کسی اور مقام پر کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ہنگامی حالت کے نفاذ سے سراسمیگی پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جس کسی وباء پر قابو پانے کیلئے عالمی ادارے کو اپنے وسائل استعمال کرنے کیلئے سامنے آنا پڑتا ہے تو وہ ایمرجنسی نافذ کئے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق بین الاقوامی ایمرجنسی سے مرادایک ایسی ”غیر معمولی صورتحال“ ہے جس سے دوسرے ملکوں کو خطرہ لاحق ہو جسے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر ایک ”مربوط ردعمل“ کے اظہار کی ضرورت ہے چین نے سب سے پہلے دسمبر میں عالمی ادارہ صحت کو ایک نئے وائرس سے متاثر ہونے والے متعدد کیسزکی اطلاع دی تھی
جس کے بعداب اٹھارہ دیگر ممالک میں اس وائرس کے پہنچنے کی رپورٹس سامنے آ چکی ہیں جن میں امریکہ، فرانس، جاپان، جرمنی، کینیڈا، جنوبی کوری اور ویت نام شامل ہیں۔ تاہم تمام ممالک میں چین کے مخصوص شہر سے آنے والے مسافروں سے یہ وائرس پہنچا ہے۔ ادھر امریکہ میں چین سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ان میں کرونا وائرس کے موجود ہونے کا پتہ لگایا جاسکے۔ امریکہ میں ابھی تک اس وائرس کے صرف پانچ تصدیق شدہ کیسز ہیں اور ایک کے سوا تمام کیسز چین سے آنے والے افراد ہیں۔ چین سے شکاگو آنے والی ای خاتون سے یہ وائرس اس کے خاوند تک پہنچاہے۔ دونوں میاں بیوی دوسرے افراد کی طرح ہسپتال میں ہیں اوران کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے شہریوں کو خبردار کیاہے کہ وہ چین اور خاص طور پر ”ووہان”کے شہر کا سفر نہ کریں۔ اس دوران صدر ٹرمپ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ حکام کے مطابق پورے امریکہ میں کرونا وائرس کا معاملہ مکمل کنٹرول میں ہے اور اس کے پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔اقوام متحدہ میں چین کے مندوب زینگ جون نے کہا ہے کہ چین عالمی ادارہ صحت کی طرف سے کوورنا وائرس کو عالمی مسئلہ قرار دیئے جانے کے اعلان کا جائزہ لے رہا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اب بھی مشکلات درپیش ہیں لہذا اس حوالے سے بین الاقوامی حمایت بہت اہم ہے اور اس مقصد کے لیے تمام ممالک کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔