نیو یارک (نمائندہ خصوصی) امریکی اخبار نیو یارک پوسٹ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا ایک مریض جو انتہائی تشویشناک حالت میں تھا ، وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بتائی ہوئی دوائی استعمال کرنے سے ٹھیک ہوگیا ہے۔
امریکی ریاست فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ ریو جیارڈنیری کا کہنا ہے کہ وہ 5 دن تک کمر درد، دردِ شقیقہ، کھانسی اور تھکاوٹ سے تنگ آکر جنوبی فلوریڈا کے جو ڈی ماگیو چلڈرن ہسپتال گئے جہاں ان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ’ایک ہفتے تک علاج کے بعد ڈاکٹرز نے کہا کہ وہ میری زندگی بچانے کیلئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے، یہ ایک ایسا وقت تھا جب میں بہت مشکل سے ہی سانس لے سکتا تھا، میں نے اپنی بیوی اور تین بچوں سے آخری ملاقات بھی کرلی تھی۔‘
ریو جیارڈنیری نے کہا کہ تشویشناک حالت کے دوران ان کے ایک دوست نے انہیں وہ آرٹیکل لکھا جس میں ملیریا کا علاج کرنے والی ہائیڈروکسی کلوروکوئین کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ’ میں نے وبائی امراض کے ڈاکٹر سے اس دوائی کے بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس دوائی کو استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، 30 منٹ کی بحث کے بعد مجھے بڑی مشکل سے یہ دوائی دی گئی۔‘
صحتیاب ہونے والے مریض نے بتایا کہ دوائی کی اس ڈوز کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کا دل سینے سے باہر دھڑک رہا ہے، 2 گھنٹے بعد انہیں پھر سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد بیناڈرل اور دوسری ادویات دی گئیں، ’ میں سوگیا اور صبح 04:45 پر میری آنکھ کھلی تو ایسا لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔‘
ریو جیارڈنیری کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے اب تک نہ تو اسے بخار ہوا ہے اور نہ ہی کورونا کی کوئی اور علامت ظاہر ہوئی ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ میرے ساتھ ہائیڈرو کسی کلوروکوئین کی ڈوز دینے کے بعد جو معاملہ پیش آیا تھا وہ دوائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ میرا جسم وائرس کے ساتھ جنگ کر رہا تھا جس کی وجہ سے مجھے شدید جھٹکے لگ رہے تھے۔
ریو جیارڈنیری لاس اینجلس میں مہنگے ہوٹلوں کو برتن سپلائی کرنے والی کمپنی کے نائب صدر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں صدر ٹرمپ کی بتائی ہوئی دوائی کی تین مزید خوراکیں دی جائیں گی اور اگلے 5 دن میں انہیں ڈسچارج کردیا جائے گا۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہائیڈروکسی کلوروکوئین سے صحتیاب ہونے والے معاملے کی یہ صرف ایک مثال ہے، اس لیے اس دوائی کو کورونا کا علاج سمجھ کر اپنے طور پر استعمال کرنے سے گریز کیا جائے اور جب تک ڈاکٹرز، ڈبلیو ایچ او یا سرکاری سطح پر کوئی فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک کورونا وائرس کے باضابطہ علاج کا انتظار کیا جائے ، بصورت دیگر دوائی کے سائڈ افیکٹس بھی ہوسکتے ہیں۔ (ادارہ)