اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)سرکاری دستا ویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے اضافی ریٹائرمنٹ مراعات رکھی گئیں۔ مقامی اخبار ’روزنامہ جنگ‘ میں تحقیقاتی صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل فل کورٹ سے اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی سہولتوں اور مراعات کی منظوری حاصل کی تھی اور اس کے بعد وزارت قانون اور وزارت خزانہ کی ہچکچاہٹ کے باوجود وفاقی حکومت نے بھی اس کی منظوری دے دی تھی ۔
وزارت خزانہ کی فائل میں لکھا گیا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں بشمول چیف جسٹس پاکستان کو پنشن کی مد میں ہینڈسم رقم اور متعدد سہولیات فراہم کررہی ہے۔
جب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ نجی مقاصد کے لیے سپورٹ سٹاف کی سہولت حاصل کرے کیوں کہ ان کا مقصد حکام کے امور انجاد دینا ہے۔ اگر اس تجویز کی منظوری دی جاتی ہے تو اس طرح کے مطالبات دیگر دفاتر جیسا کہ آئینی ادارے جس میں وفاقی شرعی عدالت، ہائی کورٹس، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین نیب اور پہلے سے ریٹائرڈ اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس وغیرہ کی جانب سے بھی کیے جاسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے 1997کے صدارتی آرڈر2(جو کہ اعلیٰ عدالتوں کی درخواستوں ،پنشنز اور مراعات سے متعلق تھا)میں 2018میں ترمیم کی تاکہ جسٹس ثاقب نثار کو ان کی ریٹائرمنٹ پر اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری فراہم کیا جا سکے ۔اضافی مراعات کے ساتھ ساتھ سابق چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد جن سہولتوں کے حقدار ہیںان میں ،کم قیمت پر سرکاری گاڑی خریدنا ،تنخواہ کا 85فیصد حصہ بطور پنشن(اس وقت پنشن دس لاکھ بنتی ہے)،تین ہزار مفت لوکل کالز ماہانہ کے ٹیلی فون بل کی ادائیگی ،دو ہزار یونٹس ماہانہ مفت بجلی کی فراہمی ،پانی کی مفت فراہمی ،ماہانہ تین سو لیٹر پٹرول کی فراہمی ،ایک ڈرائیور اور ایک اردلی یا پھر وہ چاہیں تو ڈرائیور اور اردلی کی تنخواہ اور انہیں ملنے والے تمام الاونسز اور سہولتوں کی ملا کر سپیشل اضافی پنشن وصول کر سکتے ہیں،اس کے علا وہ چوبیس گھنٹے کے لیے رہائش گاہ پر سیکیورٹی گارڈ کی فراہمی کی سہولیات شامل ہیں ۔
ان اضافی مراعات پر صحافی حامد میر نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ اڑا کر رکھ دیا ۔