• Sun. Jun 29th, 2025

News Time HD TV

Ansar Akram

محکمہ پولیس میں قبل از باری ترقیاں اور تنزلیاں . شاکرخان

May 4, 2021

پشاور پولیس میں دن بہ دن ناانصافیوں کی لہر سب سے اگے ہے پشاور کے سارے تھانوں اور چوکیات میں asi iHC اور HC بطور چوکی انچارج تعینات ہے جب کے سب انسپیکٹر جو کے اپر کالج کورس پاس کر چوکے ہےجن کو پروموشن پر ترقی کی ضرورت ہے جو کے جناب انسپیکٹر جنرل پولیس مرہوم ناصرخان دورانی سال 2016 سٹینڈنگ ارڈر جاری کیا تھا اب پولیس احلکاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے اسی طرح بہت سے ایماندار فرض شناس اور بھادر پولیس سب انسپیکٹر حضرات نے افسران بالا کو درخواست دی ہے کے ہمیں بطور چوکی انچارج تعینات کیا جائے سب انسپیکٹر یوسف شاہ خان ایک بہادر پولیس افسر ہے بھی اس میں شامل ہے تو ان کو چوکی کی بجائے ان کا تبادلہ سکول اف ٹرینگ شاکس ضلع جمرد کر دیا ہے ہمیں وطن عزیز میں ہر جگہ انصاف کا خون ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ جس طرح ہم نے ملک بھر میں ان جنگی ہوائی جہازوں کا جنہوں نے دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا تھا حشر کرتے ہوئے چوکوں میں ڈنڈا دیکر تماشا بنایا ہوا ہے ویسا ہی ہم اداروں اور ان میں خدمات سرانجام دینے والے اہلکاروں کے ساتھ کرتے ہیں ۔ خالق کائنات کی بنائی ہوئی ہر اصول قانون فطرت ہے ۔ ایک ساتھ لگائے ہوئے پودے بھی ایک جیسے ماحول میں یکساں ترقی نہیں کرتے ۔ جس پودے میں پروان چڑھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے وہی ہم عصروں میں بلند قامت دکھائی دیتا ہے ۔ ایک اور خدائی قانون ملاحظہ کیجئے ۔ جو مسلمان جتنے زیادہ نیک اور اچھے اعمال کرے گا اتنے ہی اسکے بہشتی درجات بلند ہونگے ۔ یہی قانون آپ انسانی معاشروں میں جہاں جہاں نافذ کرینگے وہاں وہاں آپ کو ایک بہتر تبدیلی نظر آئیگی ۔ محکمہ پولیس ان سرکاری محکموں میں سے ایک ہے جس کا واسطہ عوام سے زیادہ پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس فورس اعتراضات کی زد میں بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ محکمہ پولیس کے افسران اور اہلکار یکساں حق تلفیوں سے گزر رہے ہیں ۔ پولیس کی ذمہ داریاں، اوقات کار، رہائشی، میڈیکل اور دیگر سہولیات اور مراعات، بعد از سبکدوشی ملازمت انعامات و اکرامات اور دوران ملازمت انکے مشاہرے بالکل غیر انسانی، غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور تمدن کے ہر اصول کے صریحا خلاف ہیں ۔ پولیس کی جانی قربانیاں بھی مثالی ہیں اور چند افراد کے نامناسب رویوں کو ہم ادارہ جاتی تشخص نہیں کہہ سکتے کہ اچھے اور برے لوگ ہر ادارے اور معاشرے میں موجود ہوتے ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو ہم معاشرتی اور ریاستی طور پر غلط رویوں کے لئیے مجبور کرتے ہیں کہ ہم انکے خلاف ہمیشہ آواز تو اٹھاتے ہیں مگر ان کے حق میں ہم ہمیشہ گونگے رہتے ہیں ۔ محکمہ پولیس کے اہلکاروں اور صوبائی افسروں کی سروس سٹرکچر غیر مساوی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی ہے اور یوں محکمہ میں ترقی کے اصول ظالمانہ ہیں ۔ صوبائی پبلک سروس کمیشن اور مرکزی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہونے والے ہلکاروں اور افسروں کی ترقیوں اور دیگر مراعات اور سہولیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ہندوستان کے روائتی ذات پات کی کمینگی مکمل طور پر ریاست نے صوبائی اور مرکزی طور پر منتخب ہونے والے اہلکاروں پر تھوپ دی ہوئی ہے ۔ بہترین کار کردگی کی توقع تو ہر پولیس اہلکار سے کی جاتی ہے مگر بہترین کار کردگی کا کوئی صلہ دینے کا کبھی بھی سوچا نہیں گیا ہے ۔ بہترین کار کردگی دکھانے پر قبل از باری پولیس اہلکاروں کی ترقیاں مکمل طور پر قانون فطرت، قانون الہی اور انصاف کے روح کے مطابق ہے ۔ حسن کار کردگی کی بنا پر قبل از باری ترقیاں پانے والے اہلکاروں کی ترقیاں واپس لی جارہی ہیں جو غیر اخلاقی، غیر قانونی اور ظالمانہ ہے ۔ جس جس سطح پر بھی یہ فیصلہ ہوا ہے چاہے وہ مقنننہ ہو، عدلیہ ہو یا انتظامیہ یہ صریحا نالائقی اور بد دیانتی پر مبنی ہے ۔ محکمانہ ترقی پانے کے لئیے حسن کار کردگی کے روح کو اس فیصلے سے قتل کردیا گیا ہے اور اب جو جتنا پرانا ہوتا جائے گا وہ اتنی ہی ترقی پاتا جائے گا ۔محمود اور ایاز کو تو ہمیں ایک صف میں کھڑا کروانے کی توفیق نہیں ہوسکی مگر گدھے اور گھوڑے کو اس فیصلے سے ہم نے یکساں حیثیت عطا کردی جو ہمارے گدھے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ دوسری طرف کیا ان اہلکاروں کی زہنی، نفسیاتی ، ادراہ جاتی اور معاشرتی کیفیت کے بارے میں سوچا گیا ہے جن کو حسن کار کردگی کی بنا پر ملنی والی ترقیاں واپس لے لی گئی ہیں ۔ خدا کا خوف کریں اور مبنی بر انصاف قوانین ہر محکمے کے اہلکاروں کے لئیے وضع کردیجئے ۔ایک غلطی کو دوسری غلطی سے ٹھیک کرنے کی روش کو ترک کیجئے ۔